Tuesday 5 March 2013

Kehtay hain Halat kharab hain, Mulk Choor do...By Ashar Zaidi



صحافی ہوں ،طبیعت میں بے چینی کوٹ کوٹ کر بھری ہے ، کسی جگہ زیادہ دیر تک ٹک کر نہیں بیٹھ سکتا ،اور گھر میں تو بالکل نہیں ،اوپر سے ستم یہ کہ رہتا بھی گولیوں اور دھماکوں کے شہر یعنی کراچی میں ہوں ،والد صاحب بجا پریشان ہوتے ہیں کہ بیٹا گھر میں رہا کرو باہر حالات خراب ہیں،،،،کل تک میں ان کی بات ہنس کر ٹال دتا تھا کہ ابا حضور اگر موت لکھی ہے تو گھر میں بیٹھنے سے وہ ٹل نہیں جائے گی ،،،اب اسے میری بد بختی کہیں ،کالی زبان یا محض اتفاق ، اتوار کی شام جب میں پاکستان کرکٹ ٹیم کو اپنے پیروں پر کھڑا ہوتا دیکھ رہا تھا  ، اچانک ایک عجیب سی خوفناک آواز نے مجھے چونکا دیا،،،کھڑکی کے شیشے ہلے اور ہونٹ ایک دم سوکھ گیا، یہ آواز مانوس تھی ،،،،اپنے تیرہ سالہ صحافی 
کئیرئر میں کافی دفعہ سن چکا ہوں ،کبھی دور سے اور کبھی بہت قریب سے ،،،،

بے اختیار ٹی وی کے ریموٹ پر جپھٹا اور جیونیوز لگایا،،،میرے لاشعور نے مجھے دھوکہ نہیں دیا ،میری ساتھی اینکرچیخ چیخ کر کہہ رہی تھی کہ ابولاصفحانی روڈ پر دھماکا سنا گیا ہے ،،،،،جب اگلی صبح تفصیلات واضح ہوئیں تو پتہ چلا کہ اس دفعہ وہ نشانہ بنے جو گھر کے اندر بیٹھے محمد حفیظ کو جنوبی افریقہ کے بولرز کی دھنائی کرتا دیکھ رہے تھے،،،، میں نے والد صاحب  کی جانب ایک پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ دیکھا ،،شاید وہ بھی میری آنکھوں کی بے چارگی کو بھانپ گئے ،،،سچ تو کڑوا ہی 
ہوتا ہے ،،،،اب اس شہر خموشاں میں چار دیواری بھی محفوظ نہیں ،،،،

میں ایک شیعہ ہوں ،،،اپنے پیشے کے حوالے سے دو چار لوگ مجھے جانتے بھی ہیں ،،،خیال آتا ہے کہ اگر میں بھی ٹارگٹ  کلنگ کا نشانہ بنا تو ایک زبردست گرما گرم ہیڈلائن  بنے گی ،،،،شہید ولی خان بابر کی طرح میرے بھی پروموز چلیں گے ،،،پریس کلب مین تعزیتی اجلاس ہوگا ،،،وادی حسین میں میری قبر بنے گی  اور اس پر شہید کا لفظ کندہ ہوگا،،،انٹرنیشنل یونین آف جرنلسٹ میری موت کی مزمت کرے گی اور اعداد و شمار رکھنے والوں کو گنتی میں ایک اور ہندسے کا اضافہ کرنا پڑے گا،،،،،،

یہ تو خیر ایک ممکنہ صورتحال ہوسکتی ہے ،،،لیکن میں حال کا کیا کروں ،،،میرے بچے اسکور جاتے ہیں،،،میں انہیں اسکول ڈراپ کرنے جانا چھوڑ دوں ،،،،کہ جان کا خطرہ ہے،،،،ابھی حال ہی میں لاہور میں مشہور آئی سرجن  اور معصوم مرتضی کے والد کو ایسے ہی شہید کیا گیا،،،،،میرے بچے بھی انڈے ڈبل روٹی کھاتے ہیں،،،،اور میرے گھر میں بھی سودا صلف آتا ہے ،،،ایک ڈرائیور رکھ لیتا ہوں جو یہ سب کردیا کرے ،،،،کبھی طبیعت خراب ہوتی ہے ،،،چلیں محلے کے ڈاکٹر حمید اللہ کو گھر بلا لیا کروں گا کہ سر حالات خراب ہیں جان کوخطرہ ہے ،،،آپ گھر پہ ہی گولیاں لادیں ،،،،بچوں کو ایڈوینچرز آف ٹن ٹن  دکھانے ایٹریم لے گیا تھا،،،،اب بڑا بیٹا جیک دی جائنٹ سلئیر دیکھنے کی زد کررہا ہے،،،،اسے بہلا کر سلایا کہ بیٹا حالات خراب ہیں ،،،پاپا آپ کو گھر میں ہی ایک تھیٹر بنوادیں گیں،،،،

ارے ہاں یاد آیا ،،،ایک نوکری بھی تو کرتا ہوں میں ،،آفس جانا پڑتا ہے،،،کیمرے کے آگے ناچ ناچ کر سودا بیچنا ہوتا ہے ،،،،باس سے کہتا ہوں کہ سر حالات خراب ہیں ،،،گھر پر ہی ایک اسٹوڈیو بنوادیں اور اسے ایف ٹی پی سے لنک کردیں ،،،،گھر سے ہی منجن بیچ دیا کروں گا،،،،ہمارے تحریک پاکستان طالبان والے بھائی روز تین سے چار شیعوں کو شہید کردیتے ہیں،،،،اور جب ان کا ماہوار کوٹہ کم پڑنے لگتا ہے ،،،تو وہ ایک ساتھ ہی بڑا دھماکہ کرکے ٹارگٹ پورا کرلیتے ہیں،،،یہ وقت مجھ جیسے پڑھے لکھے  لبرل  اور کچھ حد تک ڈرپوک شیعوں کے لئے بڑا کھٹن ہے ،،،،اسلحہ اٹھا کر بدلہ لینا ہمیں سکھایا نہیں گیا،،،ہمیں تو کربلہ کی خاک سے صبر ک ہی درس ملا ہے ،،،،ہم تو بس دھرنا دیتے ہیں ،،،فاتحہ اور نمازوحشت پڑھ کر کسی اور ایک بھائی کی موت کا انتظار کرتے ہیں،،،

اب سوال یہ ہے کہ کیا جائے تو کیا ،،،میں تو خیر ایک ادنا صحافی ہوں ،،،میں کس گنتی میں ،،،لیکن کراچی میں ہزاروں پروفیشنل شیعہ بستے ہیں،،،،،ڈاکٹرز ،،انجنئیرز آئی ٹی پرفیشنلز ،،بینکرز،،انڈسٹریلیسٹ ،،بزنس مین اور نہ جانے کون کون سے گوہر نایاب ،،،،ہر ایک کو اپنے کمال فن میں رنگنے کےلئے سالوں پتھر پر پسنا پڑتا ہے ،،،،اور اس رنگ کو سرخ ہونے اور سڑک پر بے دریغ بہانے میں صرف نو ایم ایم کی دوگولیاں درکار ہوتی ہیں،،،،آپ کم ازکم میری اتنی بات سے تو اتفاق کریں گے ،،،یہ قوم کے ہونہار فرزند ،،جو ایک روشن مستقبل کا لازمی جز ہیں،،،،،،


ان کا خون اتنا سستا نہیں کہ محض تیس چالیس روپے کی گولی ان کے بے حساب ہنر کو چیر کے رکھ دے،،،جو چلے گئے ان کے لئے دعائے مغفرت ،،پر جو بچے ہیں کہ وہ کیا کریں ،،،،کیا ہتھیار اٹھالیں ،،اپنی باری کا انتظار کریں ،،،یہ ملک سے ہجرت کر جائیں،،،،والد صاحب کہتے ہیں کہ تمھارے پاس  موقع ہے ملک چھوڑ دو ،،،آج کی شام میرا بھی دل چاہتا ہے کہ  ایک فرمانبردار بیٹے کی طرح ان کی بات مان لوں ،،،آخر جان بچانے کا حکم بھی تو ہے ،،،

دیار غیر میں مجھے جان کی امان مل جائے گی،،،لیکن میں خود غرض کیسے بن جاوں ،،،میرے بچپن کے سارے دوست،،رشتے دار ،،ساتھی یہاں ہی تو ہیں،،وہ سب مجھ سے الوداعی ملاقات کریں گے ،،میری دعوت کریں گے ،،،اس دعوت میں لزیز پکوانوں کے لقمے اپنے حلق سے کیسے اتار پاؤں گا،،،،
میں اپنے بچوں کو تو حفاظت سے لے جاوں گا ،،،لیکن میرے عزیز ترین دوست کے بیٹے کا معصوم چہرہ تو میرے سامنے ہے،،،اپنے بیٹے کی طرح اس کی سالگرہ میں بھی میں نے ہیپی برتھ ڈے ٹو یو گایا ہے ،،،،وہ اپنے پاپا سے پوچھے گا کہ میرا دوست کہاں جارہا ہے تو میرا دوست اسے کیا جواب دے گا،

میں اپنی بیوی کو ساتھ لے جاؤں گا،،،لین اپنی ساری بھابیوں ،،بہنوں اور ماؤں کا کیا کروں گا،،،کیا ان کی فکر مجھے کینیڈا کی سرد راتوں میں گرم ہونے دیں گی،،،،میں اپنے بچپن کے ساتھیوں کو کیسے چھوڑ دوں ،،،،کہ جن کے ساتھ گرم دوپہروں میں گلی میں کرکٹ کھیلتے میرا پچپن گزرا،،،،دو روپے کی چائے ہم نے ایک ساتھ پی،،،،دو روپے کا پراٹھے میں ایک ساتھ نوالے توڑے ،،،،اپنی پہلی محبت کے راز بتائے ،،،پہلی نوکری کی مٹھائی کھلاڑی ،،،ایک ساتھ عاشور کے جلوس میں علم اٹھایا،،،،

میں ان تمام گلیوں کو کیسے چھوڑ دوں ،،،جو میرے قدموں کی آہٹ سے مانوس ہیں،،میڈیکل اسٹور والے انکل جو مجھے ادھار دوا دیتے ہیں،،،سبزی والا جو ہمیشہ مجھے تازی سبزی دیتا ہے ،،،اور گاڑ ی صاف کرنے والا جو ہر ایک صبح ایک جاندار مسکراہٹ  سے میری ساری  غنودگی دور کردیتا ہے ،،،
جب یہ سب مجھے ائیرپورٹ الوداع کرنے آئیں گے ،،،تو کیا میں ان سے آنکھیں ملاپاؤں گا،،،،کہ بھائی میں تو چلا تم سب اللہ کے حوالے

کیا میری زندی کی سنہری یادیں ،،،یہ تمام مانوس چہرے،،،دیار غیر مٰیں مجھے سکھ کا سانس لینے دیں گے ،،،،میں ہربار صبح رب و زولجلال سے یہ التجا کرتے ہوئے جنگ کی ویب سائیٹ کھولوں گا کہ آے پالنے والے میرے شہر کی گلیوں کو آباد رکھنا،،،ہر معصوم کے چہرے پر شرارت بھری مسکراہٹ قائم رکھنا ،،کسی عورت سے اس کا  تحفظ دور مت کرنا،،،،

میں والد صاحب کو کیسے سمجھاؤں  ،،آخر میں خود ایک باپ ہوں ،،،ان کا درد محسوس کرسکتا ہوں ،،،لیکن اپنے اس نادان دل کو کیسے مناؤں،،،ایسا لگتا ہے کہ جیسے مولا حسین نے اپنے خیمے کا چراغ گل کردیا  ہے ،،،،کہ جو چاہے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چلا جائے ،،،،میں اس سے کوئی شکوہ نہیں کروں گا،،،،اس اندھیرے میں ان کے اصحاب کے ساتھ شاید میں بھی کہیں بیٹھا ہوں ،،،،اس سوچ میں غرق کہ جب چراغ دوبارہ روشن ہوگا،،،تو میں کس صف میں کھڑا ہوں گا،،،










میں مانتا ہوں کہ حالات خراب ہیں،،،مگر انہیں صحیح کون کرے گا،،،شاید یہ سوال ہی  بے تکا ہوچکا ہے ،،،کیا میں اپنی بیوی بچوں کو لے کر ملک چھوڑ دوں ،،،،آج رات پھر اس سوال سے جنگ لڑتا نیند کی وادیوں میں کھو جاؤں گا،،اور اگر اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے دوران میں بھی ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہوگیا،،،تو خدارا مجھے گھر ہی میں دفنا دینا ،،،باہرحالات خراب ہیں،،،جنازہ سہراب گوٹھ سے گزرے گا،،،کہیں مجھے دفناتے ہوئے کچھ اور جنازے نہ تیار ہوجائیں،،